محمد افتخار شفیع ۔۔۔ کہی اور ان کہی کے درمیان بے سدھ پڑی ایک نظم

کہی اور ان کہی کے درمیان بے سدھ پڑی ایک نظم
_____________________________
روپہلے بدن کی سیہ پوش لڑکی
یہ کیا کہہ دیا تم نے خاموش لڑکی
یہ کیاکہہ دیا تم نے
شفاف لہروں میں پڑتے ہوئے نیلگوں عکس کو
ایک موجِ قدآور کےہوتے ہوئے رقص کو
یہ کیاکہہ دیا تم نے
جنگل کی بارش میں سہمی ہوئی بھیگتی مورنی سے
مرے سازِ خاموش کی ان کہی راگنی سے
یہ کیا کہہ دیا تم نے وشنو کی رنگت کواوڑھے ہوئے
نیلے موسم کے دلدادہ اک اجنبی شخص کو
رفاقت کےلمحات میں کانپنے کے سلیقے سے ناآشنا
منحنی شخص کو
یہ کیاکہہ دیا تم نے
اپنی ریاضت کوتج کرچٹختی ہوئی ہڈیوں کی نمائش پہ مجبور بام ِہوس پر کھڑی بیسوا موسموں کی کثافت میں مخمور بہرے تمدن کی یلغار سے

یہ کہا۔۔۔کہہ دیا تم نے خاموش لڑکی
کبھی وہ بھی کہہ دو کہ جوگفتگو کی حدوں سےسوا ہے
سخن کے حسیں سلسلہ ہائے پرشوق سے ماورا ہے
کہا ہوتا کچھ تم نے باتونی لڑکی

Related posts

Leave a Comment